Thursday, July 17, 2008

یادِ مسلسل کیسے ہو


یادِ مسلسل کیسے ہو


موجودہ حکومت کے وہ سارے اقدامات سر آنکھوں پر جن کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد میں عارضی بلڈ بینک قائم کیے گئے۔ سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کی سفارش کی گئی۔ دھشت گردی کے شکار والدین کے بچوں کی تعلیم کے لئے بے نظیر ٹرسٹ کے قیام اور راولپنڈی کے جنرل ہسپتال، مری روڈ اور اسلام آباد ایرپورٹ کو بے نظیر بھٹو سے معنون کردیا گیا۔ لیکن کیا یہ کام یہیں ختم ہو گیا؟ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور ہیروئنوں کے آدرش پورے کرنے کے لئے مسلسل کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہیں۔
مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں چار اپریل ٹرسٹ کیوں نہیں بن سکتا جو ضمانت کے پیسوں سے لاچار جیل میں بند قیدیوں کی مالی معاونت کر ے۔
کس کو یاد ہے؟
کسی بھی شام راولپنڈی کے اس پارک میں چلے جائیے جہاں نئی نسل کا ایک جمِ غفیر برگر کھانے یا سینما سے لطف اندوز ہونے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ان میں سے کتنوں کو یاد ہوگا کہ اسی جگہ ایک کال کوٹھڑی بھی ہوا کرتی تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا گیا اور پھر لٹکا دیا گیا

بے نظیر روشنی بیورو بھی تو بن سکتا ہے جس کا کام صرف یہ ہو کہ وہ غائب و لاپتہ افراد کو اندھیروں سے پھر روشنی میں لا سکے۔
ستائیس دسمبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی تو سامنے آ سکتی ہے جو دس ہزار روپے سے کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کی معیاری تعلیم یقینی بنا سکے۔
قائدِ عوام ایمپلائمنٹ ایجنسی بھی تو وجود میں آسکتی ہے جو بے روزگاروں کا ملک گیر ریکارڈ مرتب کر کے ان کے اور نجی و سرکاری اداروں کے درمیان پل کا کام کرے۔
بے نظیر فوڈ پروگرام بھی تو شروع ہوسکتا ہے جس کے تحت ملک بھر میں حکمران اتحاد کے کارکن ایسے چھوٹے چھوٹے مراکز قائم کریں جہاں آٹے سمیت روزمرہ کی لازمی اشیاء براہ راست کھیت اور فیکٹری سے معمولی منافع پر فراہم کر کے کروڑوں ووٹروں کے گھر کا چولہا روشن رکھا جائے۔
شریف ہیلتھ ٹرسٹ بھی تو تشکیل پا سکتا ہے جو ایسے لوگوں کے علاج معالجے کا انتظام اپنے ذمے لے لے جن کے پاس کالا شربت خریدنے کی استطاعت بھی نہیں۔
ولی خان ٹرائبل ڈویلپمنٹ ایجنسی بھی تو بن سکتی ہے جو پسماندہ قبائیلی علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے ماسٹر پلان کو عملی جامہ پہنائے۔
اکیس جون سالویشن آرمی بھی تو وجود میں آسکتی ہے جو اندرونی بحرانوں اور فوج کشی کے نتیجے میں دربدر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کی آبادکاری کا ذمہ اٹھا لے۔
مفتی محمود فیڈرل بورڈ بھی تو بن سکتا ہے جو فیڈریشن کے یونٹوں کے مابین وسائیل کی منصفانہ تقسیم اور زیادہ سے زیادہ اختیارات کی منتقلی پر جو بھی فیصلے کرے ان پر عمل درآمد سب پر لازم ہو۔
دخترِ مشرق انرجی کمیشن بھی تو قائم ہوسکتا ہے جس کا ٹارگٹ یہ ہو کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے تک پاکستان میں ہر صورت بجلی کی موجودہ پیداوار دوگنی کی جائے گی ۔
یہ ان بیسیوں تصورات میں سے چند ہیں جن کو عملی جامہ پہنا کر موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اپنے اکابرین کی یاد سے مالامال رکھا جاسکتا ہے۔
وقتی جوش کے تحت جو فلاحی مظاہرے ہوتے ہیں ان کی یادیں بھی وقتی ہوتی ہیں۔اور بعض اوقات تو وقتی بھی نہیں رہتیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی شام راولپنڈی کے اس پارک میں چلے جائیے جہاں نئی نسل کا ایک جمِ غفیر برگر کھانے یا سینما سے لطف اندوز ہونے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ان میں سے کتنوں کو یاد ہوگا کہ اسی جگہ ایک کال کوٹھڑی بھی ہوا کرتی تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو رکھا گیا اور پھر لٹکا دیا گیا۔