Wednesday, November 5, 2008

اوباما کی جیت پر نوحا کناں کیوں


اوباما کی جیت پر نوحا کناں کیوں

میرے سامنے کئی مضطرب چہرے تیر رہے ہیں۔ ان کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ باراک اوباما کی جیت پر ظاہر ہے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مکین اور نائب صدارتی امیدوار سارہ پیلن ، ان کے حامی اور ریپبلکن پارٹی کے کارکن تو ضرور افسردہ ہیں، لیکن دنیا میں انسانوں کی کچھ اور بھی اقسام ہیں جو بہت مایوس اور دکھی ہیں۔ کون ہیں یہ لوگ؟

یہ شام غریباں نما چہرے ان لوگوں کے ہیں جن کا باراک اوباما کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد سے فلسفہ یہ رہا ہے کہ چاہے رائے عامہ کے جائزے کچھ بھی کہیں، امریکی ایک سیاہ فام کو صدر نہیں بناسکتے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو بنیادی طور پر انسان کی بنیادی اچھائی پر اور خاص طور سے غیر مسلموں کی اچھائی پر تو بلکل یقین نہیں کر سکتے۔ وہ انسانی تاریخ کا یہ سچ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہر چیز، سوچ، فلسفہ اور نظام تغیر پزیر ہے، تاریخ بنتی رہتی ہے، معاشرتی سوچ ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے اور بنی نوع انسان مجموعی طور پر اچھائی کی اگلی سطح پر ترقی کرتی ہے۔ ان کے لئے یہ ماننا بہت تکلیف کا باعث ہوتا ہے کہ دنیا صرف سیاہ و سفید میں نہیں بٹی ہوئی۔

جان مکین

مجھے ایک جہاندیدہ شخص نے یہ عندیہ تک دے ڈالا کہ اگر اوباما جیت بھی گئے تو بھی انہیں امریکی سفید فام قتل کردیں گے۔ اب چونکے اوباما کی جیت سے یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ تمام امریکی صدر بش اور ان کی جنگجوعانہ پالیسی کے حامی نہیں اور یہ کہ امریکی عوام کی اکثریت فیصلے صرف رنگت کی بنیاد پر نہیں کرتی، ان لوگوں کے خود ساختہ فلسفے میں دراڑ پڑی ہے اور وہ بہت غمگین ہیں۔

باراک اوباما کی جیت پر وہ لوگ بھی نالاں ہیں جن کی سوچ ہے کہ صدر بش اور نیو کنزروٹو ہی امریکی سامراج کی اصل صورت ہیں اس لئے ذرا سے بھی بہتر شخص کے اقتدار میں آنے سے امریکہ کی خون خوار شبیھ میں کچھ بہتری آتی ہے جس کے نتیجے میں سامراج مخالف جدوجہد کمزور پڑجاتی ہے۔

یہ بات ایسے ہی ہے کہ جیسے جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں قومپرست کہتے تھے کہ آمر کے مظالم سے پاکستان کے خلاف نفرت پیدا ہوگی اور سندھو دیش بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس سوچ کے حامیوں کو میرا ایک دوست کہتا تھا کہ آپ چاہتے ہو جنرل ضیاء پورے سندھ میں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ بنادے اور لوگوں کو بازاروں میں پھانسیاں دے اور کوڑے مارے، اور پورے دیس کو قبرستان بنادے تاکہ آپ کا سندھو دیش بن سکے۔

ان انتخابی نتائج سے وہ پاکستانی بھی ناخوش ہیں جو آمریتوں کو ملک کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو ایک شیطانی نظام اور جاہل و کرپٹ سیاستدانوں کو اقتدار دینے سے تعبیر کرتے ہیں۔

ان کی ناراضگی کی وجہ تاریخی ہے، کیونکہ تقریباً تمام پاکستانی آمروں کو امریکہ کے ریپبلکن صدور ہی مظبوط بناتے رہے ہیں۔ باراک اوباما نے واضع کیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کو مظبوط کریں گے نہ کہ سابق صدر کی طرح کسی آمر کو۔ اب ظاہر ہے آمر نواز اشرافیہ کا آنسو بہانا تو فطری ہے۔

عراق کے حکمرانوں میں سے بھی کئی اپنے دکھی دلوں کو دلاسا دے رہے ہیں۔ ان کو اقتدار چھننے کا خطرہ ہے۔ امریکی فوج کے بل بوتے پر ان کی حکمرانی قائم ہے اور اب ان کو خدشہ ہے کہ اگر صدر اوباما نے اپنے واعدے پر عملدرآمد کرتے ہوئے امریکی فوج کو عراق سے نکالنا شروع کیا تو کیا وہ اپنی کرسیاں بچا پائیں گے یا عوامی ریلا انہیں بہا لیجائے گا؟ بس یہی فکر ان کو کھائے جارہی ہے۔

صف ماتم ان نسل پرست سفید فام اور گندمی رنگت والے لوگوں میں بھی بچھی ہوئی ہے جنہیں سیاہ رنگت والے لوگوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ میں اکثر حیران اور پریشان ہوتا ہوں کہ سفید فام لوگوں کے بعض حصوں کی نسل پرستی کے تو تاریخی اسباب ہیں لیکن ایشیائی یا گندمی رنگت والے لوگوں کی سیاہ فاموں سے کیا دشمنی ہے؟

مجھے میری ایک ایشیائی دوست کے وہ الفاظ آج بھی یاد آتے ہیں کہ’ کالے‘ چور اور جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور کوشش کرکے ان سے دور ہی رہنا۔ کئی ایسے ایشیائی آپ کو ملیں گے جو عام بول چال میں ، بغیر محسوس کئے ایسی باتیں کہتے اور کرتے ہیں جن سے باریک پردے میں چھپی نسل پرستی چھلکتی ہے۔
ایسے ’نرم‘ نسل پرستوں کو سفید فام امریکی صدور کی ڈانٹ ڈپٹ تو برداشت ہے لیکن وہ ایک سیاہ فام سے ڈکٹیشن لینے میں توھین محسوس کریں گے۔

اور ظاہر ہے دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے مکین کے جیتنے پر لاکھوں ڈالروں کی شرطیں لگا رکھی تھیں۔ ان لوگوں کا صدارتی امیدوار کی پالیسی یا شخصیت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، بس ان کو لگا کہ مکین پر ’اوڈز‘ اچھے لگے ہوئے ہیں تو اگر وہ جیت گئے تواچھے پیسے ملیں گے۔ ان بے چارے جواریوں کی کھٹیا کھڑی ہوگئی ہے۔ آج وہ پبوں میں غم غلط کر رہے ہیں۔

لیکن سب ہی اتنے غمزدہ نہیں۔ امریکی صدر جارج بش کی صورت میں باراک اوباما کے لئے خوش ہونے والے ایک ریپبلکن بھی موجود ہیں۔ ان کی خوشی کی وجہ بڑی ذاتی ہے۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ انہوں نے کھیل کھیل میں جو دنیا کو اتنا پرآشوب اور خطرناک بنا دیا ہے، کوئی آکے اسے ٹھیک کردے تاکہ وہ تاریخ کی سزا سے بچ سکیں۔

Monday, November 3, 2008

نوکر کی، تے نخرا کی!


نوکر کی، تے نخرا کی

باراک اوباما اگر چار نومبر کو جیت گئے تو امریکہ کے چوالیسویں اور پاکستان بننے کے بعد بارہویں صدر ہوں گے۔ وہ پاکستان جہاں ہر امریکی انتخاب کے موقع پر کوئی نہ کوئی اس تمنا کا اظہار کر دیتا ہے کہ اللہ کرے ری پبلیکن امیدوار جیت جائے۔کیونکہ ڈیموکریٹک صدر سے تو پاکستان خیر کی توقع نہیں کرسکتا۔اس تمنا کی بنیاد یہ تاثر ہے کہ ریپلیکن انتظامیہ پاکستان کی ہمدرد اور ڈیموکریٹک انتظامیہ بھارت نواز ہوتی ہے۔

ایسی معصومانہ دلیل وہ لوگ دیتے ہیں جو بین الاقوامی تعلقات اور انفرادی تعلقات کو ایک ہی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔مثلاً جس طرح اللہ دتہ میرا یار ہے اسی طرح چین بھی پاکستان کا یار ہے۔جس طرح میرا چچازاد طفیل مجھ سے جلتا ہے اسی طرح بھارت پاکستان کا حاسد ہے۔جس طرح استاد اسلم ہر مشکل وقت میں میرا ساتھ دیتا ہے اسی طرح کا معاملہ سعودی عرب اور پاکستان کا بھی ہے۔جس طرح فیکا پنکچر والا مجھے ادھار سودا دیتا ہے اسی طرح ریپبلیکنز پاکستان کے کام آتے ہیں اور جس طرح نیازو مجھ سے خامخواہ کی اڑی کرتا ہے ویسی ہی عادت پاکستان کے معاملے میں امریکی ڈیموکریٹس کی بھی ہے۔

یہ بات ان سادہ لوحوں کی سمجھ میں کب آئے گی کہ بین الاقوامی تعلقات یاری اور دشمنی، روٹھنے اور منانے ، قول و قرار ، وفا اور بے وفائی جیسی اصطلاحات سے عاری ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کھلی منڈی کے کاروباری سودوں کی طرح ہوتے ہیں۔جس کو جو شے جتنی قیمت پر جب تک مناسب لگتی ہے وہ اسی دوکان سے سودا خریدتا ہے ورنہ اگلی دوکان کی جانب بڑھ جاتا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو سن پچاس کی دھائی میں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگانے والے سن باسٹھ میں ایک دوسرے پر بندوقیں نہ تانتے۔عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے کہتے سامراجی کتا نہ پکار رہے ہوتے۔ویتنام کو اپنا مظلوم بھائی جتانے والا چین سن اناسی میں اسی ویتنام کی ٹھکائی نہ لگا رہا ہوتا۔اسرائیل کو ناسور کہنے والا مصر اسی اسرائیل سے گلے نہ مل رہا ہوتا اور پہلوی ایران کو جڑواں بھائی سمجھنے والے پاکستان کےخمینی ایران سے سوتیلے بھائی جیسے تعلقات نہ ہوتے۔اور تین جنگیں لڑنے والے پاکستان کا صدر یہ نہ کہہ رہا ہوتا کہ بھارت تو پاکستان کے لیے کبھی خطرہ تھا ہی نہیں۔

اسی طرح اگر امریکی ڈیموکریٹس پاکستان کے دشمن ہوتے تو لیاقت علی خان کو سوویت یونین کا ہاتھ جھٹک کر صدر ٹرومین سے ملنے کی اتنی عجلت کیوں ہوتی۔ پاکستانی انتظامیہ کیوں اٹھلا اٹھلا کر سب کو بتاتی کہ ایوب خان کی تو ڈیموکریٹ جانسن سے یاری ہے۔اسی طرح اگر ری پبلیکنز پاکستان کے دوست ہوتے تو نکسن کا ساتواں بحری بیڑہ سن اکہتر میں چٹاگانگ تک کیوں نہ پہنچ پایا۔ ریپبلیکن فورڈ کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کو دھمکی دے کر فرانسیسی ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری کیوں رکوا ئی۔ ریپبلیکن ریگن پاکستان کو افغان جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے جمہوریت کی قیمت پر ایک فوجی آمر کی خوشامد کیوں کرتا رھا۔ ری پبلیکن بش سینیر کے زمانے میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندیاں کیوں لگیں ۔اور انکے ہی صاحبزادے بش جونئیر کی انتظامیہ نے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی کیوں دی اور پاکستان کے تحفظات کے باوجود بھارت کو جوہری ٹیکنولوجی کی منتقلی کا سمجھوتہ کیوں کیا۔

اب کوئی بتائے کہ ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس اپنی ریاستی ضروریات کے دوست ہیں یا ان میں سے ایک پاکستان کا دوست ہے اور دوسرا دشمن ۔ویسے بھی اس بارے میں اتنی ٹینشن لینے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔جون مکین نہ سہی باراک اوباما سہی !
نوکر کی تے نخرا کی!

Sunday, August 3, 2008

جنازے میں آئیں نا

جنازے میں آئیں نا
آج کے متعدد پاکستانی اخبارات میں لاہور کے اس شخص کی خبر شائع ہوئی ہے جس نے اپنے باپ اور دو بہنوں کوگھر کے ایک کمرے میں نظر بند کر کے رکھا۔پندرہ برس بعد اچانک اہلِ محلہ کا ضمیر جاگا اور انہوں نے متعلقہ سرکاری اداروں کو اس المیے کی اطلاع دی۔یوں تالے توڑ کر باپ اور بیٹیوں کو باہر نکالا گیا۔تینوں ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔جبکہ ملزم فرار ہے۔
چند ماہ قبل یہ خبر بھی نمایاں ہوئی تھی کہ ایک عورت کو اسی کی اولاد نے کئی برس تک تہہ خانے میں رکھا اور اسے بھی محلے والوں کے شور مچانے پر رہائی نصیب ہوئی۔

گھریلو ملازمین کے ساتھ بیہمانہ سلوک کی خبریں تو ہر دوسرے تیسرے روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ان ملازموں پر نہ صرف گھر کا ہر فرد ذہنی و جسمانی تشدد کرتا ہے۔بلکہ کئی مرتبہ وہ مردہ بھی پائے جاتے ہیں۔لیکن یہ خبر نہیں آتی کہ مجرم خاندان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔

پاکستان جیسے ممالک میں اس طرح کی کہانیاں صرف فرد سےمنسوب نہیں ہیں ریاست بھی اسی طرح کے رویے میں ملوث ہے۔
کتنے پاکستانی شہری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاپتہ ہوگئے۔اس بارے میں حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعووں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کتنے شہریوں کو ریاستی اداروں نے دیگر ممالک کو فروخت کرکے معاوضہ وصول کرلیا ۔کوئی نہیں جانتا

سن دو ہزار سات میں صرف تھانوں کے اندر ڈیڑھ سو ملزموں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پینسٹھ ملزم پولیس حراست میں ہلاک ہوگئے۔کتنے افراد پولیس اور نیم مسلح اداروں کے نجی عقوبت خانوں میں پائے جاتے ہیں۔اور یہ عقوبت خانے کتنے ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔کون جانتا ہے۔
کتنے قیدی محض اس لیے بند ہیں کہ ان کے پاس ضمانت کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔کیا سزائے موت اور عمر قید بھگتنے والے نوے فیصد افراد کے جرائم میں یہ جرم بھی شامل ہوتا ہے کہ ان کا کوئی بااثر والی وارث نہیں ہوتا یا وہ تگڑی سفارش اور موثر دباؤ کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کا جواب کس کے پاس ہے۔
کتنے پاکستانی شہری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاپتہ ہوگئے۔اس بارے میں حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعووں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کتنے شہریوں کو ریاستی اداروں نے دیگر ممالک کو فروخت کرکے معاوضہ وصول کرلیا ۔کوئی نہیں جانتا۔

کتنے پاکستانی شہری انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کا نوالہ بن چکے ہیں۔اور کتنے بیرونِ ملک جیلوں میں ہیں۔دفترِ خارجہ کہتا ہے کہ صرف ساڑھے تین سوہیں، سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے اہلکار کے مطابق ساڑھے تین ہزارہیں جبکہ انسانی حقوق کے ادارے کہتے ہیں کہ یہ تعداد سات سے دس ہزارہے۔

خاندانی و قبائیلی تنازعات میں مصالحت کے عوض نوعمر بچیوں کو بطور تاوان دینے کی روایت کے سرپرست اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں۔جہاں صدرِ مملکت یعنی ملک کے باپ کی سوچ یہ ہو کہ کئی خواتین غیرملکی ویزوں کے لیے ریپ کروالیتی ہیں

اسوقت ستر سے زائد ممالک میں پاکستانی سفارتخانے ہیں۔بیرونِ ملک پاکستانی قیدیوں کے جرائم کی نوعیت کیا ہے۔انہیں کس قسم کی قانونی امداد میسر ہے۔ایسے سوالات پر اکثرسفارتکار بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔وزارتِ داخلہ کے کسی اہلکارسے پوچھیں کہ کتنے انسانی اسمگلروں کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سفارش کی گئی ہے۔تو یہ اہلکار کہتا ہے چائے پئیں گے یا ٹھنڈا
!
جہاں خاندانی و قبائیلی تنازعات میں مصالحت کے عوض نوعمر بچیوں کو بطور تاوان دینے کی روایت کے سرپرست اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں۔جہاں صدرِ مملکت یعنی ملک کے باپ کی سوچ یہ ہو کہ کئی خواتین غیرملکی ویزوں کے لیے ریپ کروالیتی ہیں۔وہاں اس بات پر رونے کے کیا معنی کہ کوئی شخص اپنے ماں یا باپ کو پندرہ برس کمرے میں بند رکھتا ہے اور کھانے کو پتے اور لال مرچوں کا پانی دیتا ہے۔

بےحسی کس سطح تک آ چکی ہے ؟ کل میرے کانوں نے یہ بھی سن لیا کہ اسلام آباد میں حال ہی میں کسی سرکاری افسر کا انتقال ہوا۔جس کے بعد انکی صاحبزادی اپنے والد کے جاننے والوں کو فون کرکے یہ پوچھتی رہیں کہ انکل آپ ابو کے جنازے میں تو آئیں گے نا !

Thursday, July 31, 2008

ہاری کا غصہ!

ہاری کا غصہ

ممکنہ خبر

پاک افغان سرحدی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کے دوران پاکستانی فضائیہ کے ایک طیارے نے غلطی سے دو بم سرحد پار افغان اتحادی فوجی چوکی پر گرا دئیے جس کے نتیجے میں گیارہ نیٹو فوجی ہلاک ہوگئے۔

مرنے والوں میں چار امریکی فوجی بھی بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے اتفاقی واقعات سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کمٹمنٹ پر اثر نہیں پڑے گا۔

ممکنہ نتیجہ

برسلز میں نیٹو ہائی کمان اور واشنگٹن میں سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستانی سفرا کو طلب کر کے شدید احتجاج کیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے اس واقعہ کی تسلی بخش وضاحت ملنے تک پاکستانی فوج کے لیے ماہانہ اخراجات کی ادائیگی معطل کر دی ہے۔ امریکی سینٹ کی دفاعی کمیٹی نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی اگلی کھیپ روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ نے کہا ہے کہ اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ پاکستانی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر طالبان کی ہر طرح سے پشت پناہی کر رہے ہیں۔ وزیرِ خارجہ کونڈو لیزا رائس اگلے ہفتے پاکستان آ رہی ہیں۔ جبکہ برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے اس طرح کے واقعات کو دہشت گردی کے خلاف نیٹو اور پاکستان کے سٹرٹیجک تعاون کے لیے بد شگونی قرار دیا ہے۔
حقیقی خبر

مہمند ایجنسی میں نیٹو طیاروں کی بمباری سے گیارہ پاکستانی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ نیٹو نے کہا ہے کہ یہ کارروائی پاکستانی حکام کے علم میں لا کر کی گئی تھی۔ جبکہ پینٹاگون نے اس کارروائی میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے اسے دفاعی نوعیت کی کارروائی قرار دیا ہے۔

حقیقی نتیجہ

اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے۔ پاکستانی فوج کی جانب سے اس کارروائی کو اشتعال انگیز اور بزدلانہ قرار دیا گیا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے اس واقعہ کو غلط فہمی کا نتیجہ بتایا ہے۔ جبکہ وزیرِ اعظم گیلانی نے کہا ہے کہ کسی کو پاکستان کے اندر اس طرح کی کارروائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔۔۔

( مارل آف دی سٹوری)

زمیندار اور ہاری کا غصہ تو یکساں ہو سکتا ہے لیکن ردِ عمل نہیں!

Sunday, July 27, 2008

یہ کسے جوابدہ ہیں؟

یہ کسے جوابدہ ہیں؟


اسلام آباد میں چھبیس جولائی کی شام ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ پاکستان کی دو اہم خفیہ ایجنسیاں آئی ایس آئی اور انٹیلی جینس بیورو وزارتِ داخلہ کے تحت کام کریں گی۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔
لیکن صرف پانچ گھنٹے بعد ایک اور نوٹیفکیشن آ گیا جس میں وضاحت کی گئی کہ پہلا نوٹیفکیشن غلط فہمی میں جاری ہوگیا۔ آئی ایس آئی بدستور وزارتِ دفاع کا حصہ رہے گی اور وزیرِ اعظم کو جوابدہ ہوگی۔



اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آئی ایس آئی کس کے ماتحت ہے یا ہونا چاہیئے۔اگر یہ ادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور محمکۂ موسمیات کی طرح وزارتِ دفاع کا کوئی ذیلی ادارہ ہے تو پھر دو برس قبل سیکرٹری دفاع کو سندھ ہائی کورٹ میں حبسِ بے جا کے ایک مقدمے کے دوران عدالت کے روبرو یہ کیوں کہنا پڑا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس پر وزارتِ دفاع کا محض انتظامی کنٹرول ہے، آپریشنل کنٹرول نہیں ہے۔ لہذا ان ایجنسیوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے ضمن میں وزارتِ دفاع عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کروا سکتی۔



اوراگر آئی ایس آئی وزیرِ اعظم کو جوابدہ ہے تو پھر انیس سو اٹھاسی میں آئی ایس آئی کے زیرِ انتظام اوجڑی کیمپ میں گولہ بارود اور میزائیلوں کا ذخیرہ اڑنے کی تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کیسے اڑ گئی۔
مسئلہ یہ نہیں کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔س وال صرف یہ ہے کہ کیا اداروں کو واضح مقاصد اور ڈسپلن کی حدود میں رہنا چاہئیے یا مبینہ فری میسنری طرز کی خفیہ سوسائٹیوں کی طرح محض خود کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔

ایسا کیوں ہوا کہ انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل ، مہران بینک اسکینڈل، ایک منتخب حکومت گرانے کے لئے آپریشن مڈ نائٹ جیکال اور سن دوہزار دو میں آئی ایس آئی کی بلاواسطہ مدد سے تشکیل پانے والی مسلم لیگ ق جیسے سکینڈلز کے ذمہ داروں کے اعترافات کے باوجود کوئی وزیرِ اعظم ہاتھ نہ ڈال پایا۔



اگر یہ ادارے عملاً وزیرِ اعظم کو جوابدہ تھے تو بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمی کے دوران ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو محدود کرنے کی سفارشات پر مبنی ذوالفقار کمیشن کی رپورٹ کہاں چلی گئی۔ بے نظیر بھٹو تواتر کے ساتھ کیوں کہتی رہیں کہ انکی دونوں حکومتوں کو ایجنسیوں کی مدد سے گرایا گیا۔



بارہ برس سے سپریم کورٹ کی کسی الماری میں بند ایئرمارشل اصغر خان کی اس درخواست کا کیا بنا جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایجنسیوں کی اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کو کالعدم قرار دیا جائے۔اور خود سپریم کورٹ کو یہ حکم جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ عدالتی کمروں اور ججوں کی رہائش گاہوں کو خفیہ آلات سے پاک کیا جائے۔ کیا یہ آلات لگانے کا حکم بھی کسی وزیرِ اعظم نے دیا تھا؟



تو کیا اسرائیلی وزیرِ اعظم کو جوابدہ موساد اور شن بیت، برطانوی وزیرِ اعظم کے ماتحت ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس، بھارتی حکومت کے ماتحت ریسرچ اینڈ انالسز ونگ، امریکی صدر کے تحت سی آئی اے اور ایف بی آئی جیسے ادارے بھی اتنی ہی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جتنی آزادی سے انکے پاکستان ہم پلہ ادارے کام کررہے ہیں۔



مسئلہ یہ نہیں کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔س وال صرف یہ ہے کہ کیا اداروں کو واضح مقاصد اور ڈسپلن کی حدود میں رہنا چاہئیے یا مبینہ فری میسنری طرز کی خفیہ سوسائٹیوں کی طرح محض خود کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔
اس سے زیادہ خطرناک بات اور کیا ہوگی کہ جو ادارے ملک کی داخلی و خارجی سلامتی کے نام پر کام کر رہے ہوں انکے بارے میں پارلیمنٹ تو رہی ایک طرف۔ خود وزیرِ اعظم کے دفتر یا وزارتِ دفاع و داخلہ کو بھی پوری طرح سے علم نہ ہوکہ ان اداروں کا آپریشنل کنٹرول کس کے پاس ہے۔اس کنفیوژن میں ایسے لوگوں پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے جو ادارے کے اندر ادارہ بن کر سرکاری کے بجائے انفرادی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوں۔



ہے کسی میں تپڑ جو ہاتھی سے گنا چھین سکے!

Thursday, July 24, 2008

بش، اوبامہ چچا بھتیجا!



بش، اوبامہ چچا بھتیجا!


اوبامہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں
بہت دن ہوئے ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات امریکہ میں نہیں وانا اور وزیرستان میں لڑے جارہے ہیں۔
اب جبکہ جارج بش کی صدارت اور شاید ریپبلکن پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہونے میں بمشکل چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں تو یہ بات مذاق نہیں حقیقت کے قریب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔


گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد دہشتگردی کیخلاف امریکہ کی عالمی جنگ کو چھ سال گزرنے کے باوجود اب تک القاعدہ کے ختم ہوجانے کے آثار نہیں۔ بلکہ انکی پھر سے پاکستان کے قبائلی یا بندوبستی علاقوں میں مبینہ منظم موجودگی کی رپورٹیں، اور اسامہ بن لادن سمیت صف اول کی قیادت کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے میں بش انتظامیہ کی ناکامی کی زبردست جھنجھلاہٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور سرحد پار پاکستانی و افغان طالبان کی کارروائیوں کے پس منظر میں اگر دنیا کے نقشے کو امریکہ سے دیکھا جائے تو پاکستان پر سرخ پینسل سے ایک دائرہ سا کھنچا نظر آتا ہے-
ہرے رنگ سے بچو
براک اوبامہ نے اپنے وفد کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سبز رنگ کے کپڑوں سے احتمال برتیں کیونکہ، بقول راوی، یہ رنگ مسلمانوں کا ہے

ایک امریکی صحافی
اب تو اس لطیفے پر بھی ہنسی نہیں آتی کہ قبائلیوں کیلیے دو ارب ڈالرز میں ایک عرب کا سودا مہنگا نہیں-
سچ تو یہ ہے کہ صدر جارج بش یا انکی ریپبلکن پارٹی انکا عہد صدارت ختم ہونے سے قبل ہی اسامہ بن لادن اور ان کے صف اول کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ پکڑ کر جاتے جاتے اپنا ہاتھ دکھانا چاہتے ہیں، پھر وہ پاکستان کے استحکام کی قیمت پر ہو کہ کسی اور قیمت پر۔

اور یہی پروگرام ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار براک حسین اوبامہ اور انکی پارٹی کا لگتا ہے۔ براک اوبامہ نے اسی ہفتے افغانستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان میں القاعدہ کے روپوش لیڈروں کی موجودگی کی پکی شہادت پر پاکستان پر حملہ کردینے کا عزم پھر سے دہرایا اور انہوں نے پاکستان سے یہ بھی کہا کہ وہ قبائلی علاقوں سے طالبان کے تربیتی کیمپ ختم کردے۔
بقول ایک صحافی اردن جاتے ہوئے براک اوبامہ نے اپنے وفد کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سبز رنگ کے کپڑوں سے احتمال برتیں کیونکہ، بقول راوی، یہ رنگ مسلمانوں کا ہے! (زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں!)
اس حالیہ کارٹون پر کافی تنازعہ کھڑا ہوا
بقول امریکی صحافی افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں۔ اگر افغان طالبان ’بڑی ٹی‘ سے لکھے جاتے ہیں تو پاکستانی طالبان میں پہلا انگریزی حرف تہجی چھوٹی ’ٹی‘ بنتا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر تیس سمتبر جیسا سانحہ نہ ہوا ہوتا تو صدر بش اور جنرل مشرف کیا کررہے ہوتے۔ ایک دفعہ پھر بش مشرف دوستی کی قیمت پر پاکستان امریکہ تعلقات اور مفادات دائو پر لگے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکی انتظامیہ اور کیپیٹل ہل کو اپنی صفائی پیش کرنے آئے تھے اور اب پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پچہتر اراکین پر مشتمل اپنے ’شاہی یا ریجمینٹل وفد‘ کے ساتھ آنے کو ہیں۔
’ہم تو ہمیشہ ہی تعاون کرتے رہے ہیں اور یہی عرض پھر دہرائيں گے۔‘ یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کے موقع پر پاکستان کے ایک سینئر سفارتکار ایک سینئر پاکستانی صحافی سے کہہ رہے تھے، ایک ایسے سینئر سفارتکار جو بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے سخت مخالفوں میں سے تھے اور شاید اسی لیے اب بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں! (کیونکہ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی تو پاکستان کی وزارت خارجہ نہیں آبپارے والی لال بلڈنگ والی سرکار عالم آشکار آئي ایس آئي ہی بناتی ہے)

نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کو ایک سرکاری استقبالیے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک پاکستانی پختون امریکی ڈاکٹر نے سوال کیا تھا کہ کیا وہ ہر سال وزیرستان میں اس لیے لاکھوں ڈالر سے آنکھوں کے کیمپ لگاتا تھا اور وہاں ہسپتال قائم کیے تھے کہ ان پر امریکہ بممباری کرے؟
رونا اس پر نہیں کہ وہ آئے تھے رونا ا سی پر ہے کہ ’وہ پھر آنے کا کہہ کر گۓ ہیں-‘
بقول ایک پختون تجزیہ نگار، ابتک القاعدہ کی جتنی بھی دو تین نمبر کی قیادت گرفتار ہوئی ہے وہ قبائلی علاقوں سے نہیں بلکہ پاکستان کے بڑے شہروں اور علاقوں سے ہوئے ہیں تو پھر ان شہروں اور علاقوں پر فوج کشی یا بمباری کیوں نہیں کی گئي؟
حال ہی میں اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے امریکی جاسوسی ایجنسی سی آئي آے اور پاکستانی جاسوسی ایجنسی آئي ایس آئی کے درمیاں تعلقات کی موجودہ نوعیت کو ’غیر آرام دہ شادی‘ سے تعبیر کیا تھا۔
بہت عرصہ قبل جب اسی شادی کا استعارہ امریکہ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک تقریب میں استعمال کیا گيا تھا تو وہاں موجود پختون سیاسی رہنما خان عبد الولی خان نے کہا تھا ’یہ معلوم نہیں ہوسکا اس شادی میں دلہن کون ہے؟‘
امریکہ میں صرف حکومت بدلے گی یا پالیسی بھی؟

اب ولی خان کی پارٹی انکے آبائي صوبہ سرحد یا پختونخواہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ مخلوط حکومت میں ہے ، طالبان کا ’قبضہ‘ پشاور پر ہونے کی افواہ نما خبروں نے پورے خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے مستقل پر ایک بڑا سوالیہ نشان بنایا ہوا ہے اور پاکستان افغانستان سرحد پر امریکی ڈرونز (پائیلٹ بنا طیاروں) کی بغیر شور آوازيں بہت کچھ بتا رہی ہیں۔
ایک بڑے امریکی اخبار میں ’ کاؤنٹر ٹیررزم‘ ڈیسک بہت وقت پہلے بن چکی ہے جسے وہاں کام کرنے والے صحافی ’شیخ ڈیسک‘ کہتے ہیں-
پاکستانی فوج بینظیر بھٹوکے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے پر موجودہ حکومت سے سخت نالاں ہے۔ اگر پاکستانی فوج نے بینظیر بھٹو کو قتل نہیں کیا تو پھر ’ڈر کس کا ہے؟‘

ابھی تو اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر دور دور تک نیلے ہیلمٹ والے سپاہی (اقوام متحدہ کی امن فوج) نہیں دکھائی دیتے- بینظیر بھٹو کو قتل کرنے میں مبینہ طور ملوث بیت اللہ محسود سمیت تمام پاکستانی یا چھوٹی ’ٹی‘ والے طالبان سے موجودہ مخلوط حکومت نے آپریشنز کے بجائے مذاکرات کیے ہیں- ان مذاکرات سے امریکی اور نیٹو والے سخت نالاں ہیں۔
بیت اللہ محسود صحافیوں کو مدعو کرکے انٹرویوز دیتے ہیں اور القاعدہ کا ابو یزید پاکسانی نجی چینل کو انٹرویو دیکر پاکستانی فوج سے القاعدہ کی لاتعلقی کا دعوا کرتا ہے۔

پاکستان میں سیاست اور صحافت کا عام طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ فوج اور اسکی ایجینسیوں کی منشا اور مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔
پاکستانی فوجی ایجینسوں سے طالبان یا القاعدہ کے تعلقات پر امریکیوں کو شک کیا پک ہو چکا ہے اور ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم صدر بش اور امریکی قانونسازوں کو یہ سمجھانے آئيں گے کہ وہ مشرف سے ہاتھ ہٹا لیں!
مجھے ایک سادہ لوح شخص کی کرفیو کے وقفے میں بازار جاکر خریداہوا جوتا بدلنے والی خواہش یاد آتی ہے۔
مشرف سے تعلقات میں بش اور انکا کتا ’بڈی‘ ایک طرف اور باقی دنیا ایک طرف ہے- مشرف امریکی وار آن ٹیرر میں چاہے قصہ پارینہ ہی ہوں لیکن وہ اور جنرل کیانی یا ان کے زیر کمان پاکستانی فوج کا رشتہ اب بھی ’چچے بھتیجے کا‘لگتا ہے-
اور یہی حال یہاں پاکستان پر پالیسی میں بش اور براک اوبامہ کا ہے