Sunday, August 3, 2008

جنازے میں آئیں نا

جنازے میں آئیں نا
آج کے متعدد پاکستانی اخبارات میں لاہور کے اس شخص کی خبر شائع ہوئی ہے جس نے اپنے باپ اور دو بہنوں کوگھر کے ایک کمرے میں نظر بند کر کے رکھا۔پندرہ برس بعد اچانک اہلِ محلہ کا ضمیر جاگا اور انہوں نے متعلقہ سرکاری اداروں کو اس المیے کی اطلاع دی۔یوں تالے توڑ کر باپ اور بیٹیوں کو باہر نکالا گیا۔تینوں ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔جبکہ ملزم فرار ہے۔
چند ماہ قبل یہ خبر بھی نمایاں ہوئی تھی کہ ایک عورت کو اسی کی اولاد نے کئی برس تک تہہ خانے میں رکھا اور اسے بھی محلے والوں کے شور مچانے پر رہائی نصیب ہوئی۔

گھریلو ملازمین کے ساتھ بیہمانہ سلوک کی خبریں تو ہر دوسرے تیسرے روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ان ملازموں پر نہ صرف گھر کا ہر فرد ذہنی و جسمانی تشدد کرتا ہے۔بلکہ کئی مرتبہ وہ مردہ بھی پائے جاتے ہیں۔لیکن یہ خبر نہیں آتی کہ مجرم خاندان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔

پاکستان جیسے ممالک میں اس طرح کی کہانیاں صرف فرد سےمنسوب نہیں ہیں ریاست بھی اسی طرح کے رویے میں ملوث ہے۔
کتنے پاکستانی شہری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاپتہ ہوگئے۔اس بارے میں حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعووں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کتنے شہریوں کو ریاستی اداروں نے دیگر ممالک کو فروخت کرکے معاوضہ وصول کرلیا ۔کوئی نہیں جانتا

سن دو ہزار سات میں صرف تھانوں کے اندر ڈیڑھ سو ملزموں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پینسٹھ ملزم پولیس حراست میں ہلاک ہوگئے۔کتنے افراد پولیس اور نیم مسلح اداروں کے نجی عقوبت خانوں میں پائے جاتے ہیں۔اور یہ عقوبت خانے کتنے ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔کون جانتا ہے۔
کتنے قیدی محض اس لیے بند ہیں کہ ان کے پاس ضمانت کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔کیا سزائے موت اور عمر قید بھگتنے والے نوے فیصد افراد کے جرائم میں یہ جرم بھی شامل ہوتا ہے کہ ان کا کوئی بااثر والی وارث نہیں ہوتا یا وہ تگڑی سفارش اور موثر دباؤ کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کا جواب کس کے پاس ہے۔
کتنے پاکستانی شہری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاپتہ ہوگئے۔اس بارے میں حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعووں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔کتنے شہریوں کو ریاستی اداروں نے دیگر ممالک کو فروخت کرکے معاوضہ وصول کرلیا ۔کوئی نہیں جانتا۔

کتنے پاکستانی شہری انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کا نوالہ بن چکے ہیں۔اور کتنے بیرونِ ملک جیلوں میں ہیں۔دفترِ خارجہ کہتا ہے کہ صرف ساڑھے تین سوہیں، سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے اہلکار کے مطابق ساڑھے تین ہزارہیں جبکہ انسانی حقوق کے ادارے کہتے ہیں کہ یہ تعداد سات سے دس ہزارہے۔

خاندانی و قبائیلی تنازعات میں مصالحت کے عوض نوعمر بچیوں کو بطور تاوان دینے کی روایت کے سرپرست اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں۔جہاں صدرِ مملکت یعنی ملک کے باپ کی سوچ یہ ہو کہ کئی خواتین غیرملکی ویزوں کے لیے ریپ کروالیتی ہیں

اسوقت ستر سے زائد ممالک میں پاکستانی سفارتخانے ہیں۔بیرونِ ملک پاکستانی قیدیوں کے جرائم کی نوعیت کیا ہے۔انہیں کس قسم کی قانونی امداد میسر ہے۔ایسے سوالات پر اکثرسفارتکار بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔وزارتِ داخلہ کے کسی اہلکارسے پوچھیں کہ کتنے انسانی اسمگلروں کے لیے سزائے موت یا عمر قید کی سفارش کی گئی ہے۔تو یہ اہلکار کہتا ہے چائے پئیں گے یا ٹھنڈا
!
جہاں خاندانی و قبائیلی تنازعات میں مصالحت کے عوض نوعمر بچیوں کو بطور تاوان دینے کی روایت کے سرپرست اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں۔جہاں صدرِ مملکت یعنی ملک کے باپ کی سوچ یہ ہو کہ کئی خواتین غیرملکی ویزوں کے لیے ریپ کروالیتی ہیں۔وہاں اس بات پر رونے کے کیا معنی کہ کوئی شخص اپنے ماں یا باپ کو پندرہ برس کمرے میں بند رکھتا ہے اور کھانے کو پتے اور لال مرچوں کا پانی دیتا ہے۔

بےحسی کس سطح تک آ چکی ہے ؟ کل میرے کانوں نے یہ بھی سن لیا کہ اسلام آباد میں حال ہی میں کسی سرکاری افسر کا انتقال ہوا۔جس کے بعد انکی صاحبزادی اپنے والد کے جاننے والوں کو فون کرکے یہ پوچھتی رہیں کہ انکل آپ ابو کے جنازے میں تو آئیں گے نا !