یہ بات ان سادہ لوحوں کی سمجھ میں کب آئے گی کہ بین الاقوامی تعلقات یاری اور دشمنی، روٹھنے اور منانے ، قول و قرار ، وفا اور بے وفائی جیسی اصطلاحات سے عاری ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کھلی منڈی کے کاروباری سودوں کی طرح ہوتے ہیں۔جس کو جو شے جتنی قیمت پر جب تک مناسب لگتی ہے وہ اسی دوکان سے سودا خریدتا ہے ورنہ اگلی دوکان کی جانب بڑھ جاتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو سن پچاس کی دھائی میں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگانے والے سن باسٹھ میں ایک دوسرے پر بندوقیں نہ تانتے۔عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے کہتے سامراجی کتا نہ پکار رہے ہوتے۔ویتنام کو اپنا مظلوم بھائی جتانے والا چین سن اناسی میں اسی ویتنام کی ٹھکائی نہ لگا رہا ہوتا۔اسرائیل کو ناسور کہنے والا مصر اسی اسرائیل سے گلے نہ مل رہا ہوتا اور پہلوی ایران کو جڑواں بھائی سمجھنے والے پاکستان کےخمینی ایران سے سوتیلے بھائی جیسے تعلقات نہ ہوتے۔اور تین جنگیں لڑنے والے پاکستان کا صدر یہ نہ کہہ رہا ہوتا کہ بھارت تو پاکستان کے لیے کبھی خطرہ تھا ہی نہیں۔
اسی طرح اگر امریکی ڈیموکریٹس پاکستان کے دشمن ہوتے تو لیاقت علی خان کو سوویت یونین کا ہاتھ جھٹک کر صدر ٹرومین سے ملنے کی اتنی عجلت کیوں ہوتی۔ پاکستانی انتظامیہ کیوں اٹھلا اٹھلا کر سب کو بتاتی کہ ایوب خان کی تو ڈیموکریٹ جانسن سے یاری ہے۔اسی طرح اگر ری پبلیکنز پاکستان کے دوست ہوتے تو نکسن کا ساتواں بحری بیڑہ سن اکہتر میں چٹاگانگ تک کیوں نہ پہنچ پایا۔ ریپبلیکن فورڈ کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کو دھمکی دے کر فرانسیسی ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کی خریداری کیوں رکوا ئی۔ ریپبلیکن ریگن پاکستان کو افغان جنگ کا ایندھن بنانے کے لیے جمہوریت کی قیمت پر ایک فوجی آمر کی خوشامد کیوں کرتا رھا۔ ری پبلیکن بش سینیر کے زمانے میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندیاں کیوں لگیں ۔اور انکے ہی صاحبزادے بش جونئیر کی انتظامیہ نے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی کیوں دی اور پاکستان کے تحفظات کے باوجود بھارت کو جوہری ٹیکنولوجی کی منتقلی کا سمجھوتہ کیوں کیا۔
No comments:
Post a Comment