Thursday, July 24, 2008

بش، اوبامہ چچا بھتیجا!



بش، اوبامہ چچا بھتیجا!


اوبامہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں
بہت دن ہوئے ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات امریکہ میں نہیں وانا اور وزیرستان میں لڑے جارہے ہیں۔
اب جبکہ جارج بش کی صدارت اور شاید ریپبلکن پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہونے میں بمشکل چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں تو یہ بات مذاق نہیں حقیقت کے قریب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔


گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد دہشتگردی کیخلاف امریکہ کی عالمی جنگ کو چھ سال گزرنے کے باوجود اب تک القاعدہ کے ختم ہوجانے کے آثار نہیں۔ بلکہ انکی پھر سے پاکستان کے قبائلی یا بندوبستی علاقوں میں مبینہ منظم موجودگی کی رپورٹیں، اور اسامہ بن لادن سمیت صف اول کی قیادت کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے میں بش انتظامیہ کی ناکامی کی زبردست جھنجھلاہٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور سرحد پار پاکستانی و افغان طالبان کی کارروائیوں کے پس منظر میں اگر دنیا کے نقشے کو امریکہ سے دیکھا جائے تو پاکستان پر سرخ پینسل سے ایک دائرہ سا کھنچا نظر آتا ہے-
ہرے رنگ سے بچو
براک اوبامہ نے اپنے وفد کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سبز رنگ کے کپڑوں سے احتمال برتیں کیونکہ، بقول راوی، یہ رنگ مسلمانوں کا ہے

ایک امریکی صحافی
اب تو اس لطیفے پر بھی ہنسی نہیں آتی کہ قبائلیوں کیلیے دو ارب ڈالرز میں ایک عرب کا سودا مہنگا نہیں-
سچ تو یہ ہے کہ صدر جارج بش یا انکی ریپبلکن پارٹی انکا عہد صدارت ختم ہونے سے قبل ہی اسامہ بن لادن اور ان کے صف اول کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ پکڑ کر جاتے جاتے اپنا ہاتھ دکھانا چاہتے ہیں، پھر وہ پاکستان کے استحکام کی قیمت پر ہو کہ کسی اور قیمت پر۔

اور یہی پروگرام ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار براک حسین اوبامہ اور انکی پارٹی کا لگتا ہے۔ براک اوبامہ نے اسی ہفتے افغانستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان میں القاعدہ کے روپوش لیڈروں کی موجودگی کی پکی شہادت پر پاکستان پر حملہ کردینے کا عزم پھر سے دہرایا اور انہوں نے پاکستان سے یہ بھی کہا کہ وہ قبائلی علاقوں سے طالبان کے تربیتی کیمپ ختم کردے۔
بقول ایک صحافی اردن جاتے ہوئے براک اوبامہ نے اپنے وفد کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سبز رنگ کے کپڑوں سے احتمال برتیں کیونکہ، بقول راوی، یہ رنگ مسلمانوں کا ہے! (زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں!)
اس حالیہ کارٹون پر کافی تنازعہ کھڑا ہوا
بقول امریکی صحافی افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں۔ اگر افغان طالبان ’بڑی ٹی‘ سے لکھے جاتے ہیں تو پاکستانی طالبان میں پہلا انگریزی حرف تہجی چھوٹی ’ٹی‘ بنتا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر تیس سمتبر جیسا سانحہ نہ ہوا ہوتا تو صدر بش اور جنرل مشرف کیا کررہے ہوتے۔ ایک دفعہ پھر بش مشرف دوستی کی قیمت پر پاکستان امریکہ تعلقات اور مفادات دائو پر لگے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکی انتظامیہ اور کیپیٹل ہل کو اپنی صفائی پیش کرنے آئے تھے اور اب پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پچہتر اراکین پر مشتمل اپنے ’شاہی یا ریجمینٹل وفد‘ کے ساتھ آنے کو ہیں۔
’ہم تو ہمیشہ ہی تعاون کرتے رہے ہیں اور یہی عرض پھر دہرائيں گے۔‘ یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کے موقع پر پاکستان کے ایک سینئر سفارتکار ایک سینئر پاکستانی صحافی سے کہہ رہے تھے، ایک ایسے سینئر سفارتکار جو بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے سخت مخالفوں میں سے تھے اور شاید اسی لیے اب بھی اپنے عہدے پر قائم ہیں! (کیونکہ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی تو پاکستان کی وزارت خارجہ نہیں آبپارے والی لال بلڈنگ والی سرکار عالم آشکار آئي ایس آئي ہی بناتی ہے)

نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کو ایک سرکاری استقبالیے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک پاکستانی پختون امریکی ڈاکٹر نے سوال کیا تھا کہ کیا وہ ہر سال وزیرستان میں اس لیے لاکھوں ڈالر سے آنکھوں کے کیمپ لگاتا تھا اور وہاں ہسپتال قائم کیے تھے کہ ان پر امریکہ بممباری کرے؟
رونا اس پر نہیں کہ وہ آئے تھے رونا ا سی پر ہے کہ ’وہ پھر آنے کا کہہ کر گۓ ہیں-‘
بقول ایک پختون تجزیہ نگار، ابتک القاعدہ کی جتنی بھی دو تین نمبر کی قیادت گرفتار ہوئی ہے وہ قبائلی علاقوں سے نہیں بلکہ پاکستان کے بڑے شہروں اور علاقوں سے ہوئے ہیں تو پھر ان شہروں اور علاقوں پر فوج کشی یا بمباری کیوں نہیں کی گئي؟
حال ہی میں اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے امریکی جاسوسی ایجنسی سی آئي آے اور پاکستانی جاسوسی ایجنسی آئي ایس آئی کے درمیاں تعلقات کی موجودہ نوعیت کو ’غیر آرام دہ شادی‘ سے تعبیر کیا تھا۔
بہت عرصہ قبل جب اسی شادی کا استعارہ امریکہ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک تقریب میں استعمال کیا گيا تھا تو وہاں موجود پختون سیاسی رہنما خان عبد الولی خان نے کہا تھا ’یہ معلوم نہیں ہوسکا اس شادی میں دلہن کون ہے؟‘
امریکہ میں صرف حکومت بدلے گی یا پالیسی بھی؟

اب ولی خان کی پارٹی انکے آبائي صوبہ سرحد یا پختونخواہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ مخلوط حکومت میں ہے ، طالبان کا ’قبضہ‘ پشاور پر ہونے کی افواہ نما خبروں نے پورے خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے مستقل پر ایک بڑا سوالیہ نشان بنایا ہوا ہے اور پاکستان افغانستان سرحد پر امریکی ڈرونز (پائیلٹ بنا طیاروں) کی بغیر شور آوازيں بہت کچھ بتا رہی ہیں۔
ایک بڑے امریکی اخبار میں ’ کاؤنٹر ٹیررزم‘ ڈیسک بہت وقت پہلے بن چکی ہے جسے وہاں کام کرنے والے صحافی ’شیخ ڈیسک‘ کہتے ہیں-
پاکستانی فوج بینظیر بھٹوکے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے پر موجودہ حکومت سے سخت نالاں ہے۔ اگر پاکستانی فوج نے بینظیر بھٹو کو قتل نہیں کیا تو پھر ’ڈر کس کا ہے؟‘

ابھی تو اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر دور دور تک نیلے ہیلمٹ والے سپاہی (اقوام متحدہ کی امن فوج) نہیں دکھائی دیتے- بینظیر بھٹو کو قتل کرنے میں مبینہ طور ملوث بیت اللہ محسود سمیت تمام پاکستانی یا چھوٹی ’ٹی‘ والے طالبان سے موجودہ مخلوط حکومت نے آپریشنز کے بجائے مذاکرات کیے ہیں- ان مذاکرات سے امریکی اور نیٹو والے سخت نالاں ہیں۔
بیت اللہ محسود صحافیوں کو مدعو کرکے انٹرویوز دیتے ہیں اور القاعدہ کا ابو یزید پاکسانی نجی چینل کو انٹرویو دیکر پاکستانی فوج سے القاعدہ کی لاتعلقی کا دعوا کرتا ہے۔

پاکستان میں سیاست اور صحافت کا عام طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ فوج اور اسکی ایجینسیوں کی منشا اور مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔
پاکستانی فوجی ایجینسوں سے طالبان یا القاعدہ کے تعلقات پر امریکیوں کو شک کیا پک ہو چکا ہے اور ایسے میں پاکستانی وزیر اعظم صدر بش اور امریکی قانونسازوں کو یہ سمجھانے آئيں گے کہ وہ مشرف سے ہاتھ ہٹا لیں!
مجھے ایک سادہ لوح شخص کی کرفیو کے وقفے میں بازار جاکر خریداہوا جوتا بدلنے والی خواہش یاد آتی ہے۔
مشرف سے تعلقات میں بش اور انکا کتا ’بڈی‘ ایک طرف اور باقی دنیا ایک طرف ہے- مشرف امریکی وار آن ٹیرر میں چاہے قصہ پارینہ ہی ہوں لیکن وہ اور جنرل کیانی یا ان کے زیر کمان پاکستانی فوج کا رشتہ اب بھی ’چچے بھتیجے کا‘لگتا ہے-
اور یہی حال یہاں پاکستان پر پالیسی میں بش اور براک اوبامہ کا ہے

No comments: