Sunday, July 27, 2008

یہ کسے جوابدہ ہیں؟

یہ کسے جوابدہ ہیں؟


اسلام آباد میں چھبیس جولائی کی شام ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ پاکستان کی دو اہم خفیہ ایجنسیاں آئی ایس آئی اور انٹیلی جینس بیورو وزارتِ داخلہ کے تحت کام کریں گی۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔
لیکن صرف پانچ گھنٹے بعد ایک اور نوٹیفکیشن آ گیا جس میں وضاحت کی گئی کہ پہلا نوٹیفکیشن غلط فہمی میں جاری ہوگیا۔ آئی ایس آئی بدستور وزارتِ دفاع کا حصہ رہے گی اور وزیرِ اعظم کو جوابدہ ہوگی۔



اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آئی ایس آئی کس کے ماتحت ہے یا ہونا چاہیئے۔اگر یہ ادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور محمکۂ موسمیات کی طرح وزارتِ دفاع کا کوئی ذیلی ادارہ ہے تو پھر دو برس قبل سیکرٹری دفاع کو سندھ ہائی کورٹ میں حبسِ بے جا کے ایک مقدمے کے دوران عدالت کے روبرو یہ کیوں کہنا پڑا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جینس پر وزارتِ دفاع کا محض انتظامی کنٹرول ہے، آپریشنل کنٹرول نہیں ہے۔ لہذا ان ایجنسیوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے ضمن میں وزارتِ دفاع عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کروا سکتی۔



اوراگر آئی ایس آئی وزیرِ اعظم کو جوابدہ ہے تو پھر انیس سو اٹھاسی میں آئی ایس آئی کے زیرِ انتظام اوجڑی کیمپ میں گولہ بارود اور میزائیلوں کا ذخیرہ اڑنے کی تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کیسے اڑ گئی۔
مسئلہ یہ نہیں کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔س وال صرف یہ ہے کہ کیا اداروں کو واضح مقاصد اور ڈسپلن کی حدود میں رہنا چاہئیے یا مبینہ فری میسنری طرز کی خفیہ سوسائٹیوں کی طرح محض خود کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔

ایسا کیوں ہوا کہ انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل ، مہران بینک اسکینڈل، ایک منتخب حکومت گرانے کے لئے آپریشن مڈ نائٹ جیکال اور سن دوہزار دو میں آئی ایس آئی کی بلاواسطہ مدد سے تشکیل پانے والی مسلم لیگ ق جیسے سکینڈلز کے ذمہ داروں کے اعترافات کے باوجود کوئی وزیرِ اعظم ہاتھ نہ ڈال پایا۔



اگر یہ ادارے عملاً وزیرِ اعظم کو جوابدہ تھے تو بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمی کے دوران ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو محدود کرنے کی سفارشات پر مبنی ذوالفقار کمیشن کی رپورٹ کہاں چلی گئی۔ بے نظیر بھٹو تواتر کے ساتھ کیوں کہتی رہیں کہ انکی دونوں حکومتوں کو ایجنسیوں کی مدد سے گرایا گیا۔



بارہ برس سے سپریم کورٹ کی کسی الماری میں بند ایئرمارشل اصغر خان کی اس درخواست کا کیا بنا جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایجنسیوں کی اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کو کالعدم قرار دیا جائے۔اور خود سپریم کورٹ کو یہ حکم جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ عدالتی کمروں اور ججوں کی رہائش گاہوں کو خفیہ آلات سے پاک کیا جائے۔ کیا یہ آلات لگانے کا حکم بھی کسی وزیرِ اعظم نے دیا تھا؟



تو کیا اسرائیلی وزیرِ اعظم کو جوابدہ موساد اور شن بیت، برطانوی وزیرِ اعظم کے ماتحت ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس، بھارتی حکومت کے ماتحت ریسرچ اینڈ انالسز ونگ، امریکی صدر کے تحت سی آئی اے اور ایف بی آئی جیسے ادارے بھی اتنی ہی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جتنی آزادی سے انکے پاکستان ہم پلہ ادارے کام کررہے ہیں۔



مسئلہ یہ نہیں کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔س وال صرف یہ ہے کہ کیا اداروں کو واضح مقاصد اور ڈسپلن کی حدود میں رہنا چاہئیے یا مبینہ فری میسنری طرز کی خفیہ سوسائٹیوں کی طرح محض خود کو جوابدہ ہونا چاہیئے۔
اس سے زیادہ خطرناک بات اور کیا ہوگی کہ جو ادارے ملک کی داخلی و خارجی سلامتی کے نام پر کام کر رہے ہوں انکے بارے میں پارلیمنٹ تو رہی ایک طرف۔ خود وزیرِ اعظم کے دفتر یا وزارتِ دفاع و داخلہ کو بھی پوری طرح سے علم نہ ہوکہ ان اداروں کا آپریشنل کنٹرول کس کے پاس ہے۔اس کنفیوژن میں ایسے لوگوں پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے جو ادارے کے اندر ادارہ بن کر سرکاری کے بجائے انفرادی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوں۔



ہے کسی میں تپڑ جو ہاتھی سے گنا چھین سکے!

No comments: